ذکرِ حسن و جمال کرتے ہو
جُراَتِ قیل و قال کرتے ہو
اس زمانے میں سچ کو سچ کہہ کر
اپنا جینا محال کرتے ہو
یاد کر کے اُسے ہے یہ الزام
قوّتِ جاں بحال کرتے ہو
پیروی کر کے اُس کی خُود کو کیوں
اس قدَر خوش خصال کرتے ہو
دیکھ کر تازگی گلابوں کی
خوب دل کو نہال کرتے ہو
اس سے نظریں ملا نہیں پاتے
روبرو جب سوال کرتے ہو
اپنی صورت تو دیکھ لی ہوتی
آرزوئے وصال کرتے ہو
چاند سورج سے پوچھ کر دیکھو
کیوں عروج و زوال کرتے ہو
کیا بتاؤں کہ میرے سپنوں میں
کیا مرا آ کے حال کرتے ہو
سامنے جب مرے نہیں ہوتے
جان میری نڈھال کرتے ہو
دیکھنا بھی ہے تابِ دید نہیں
تم بھی طارق کمال کرتے ہو

0
1