خدا کے بندوں کا جن کو خیال رہتا ہے
خدا کا ان کو بھُلانا محال رہتا ہے
نہ فکر ہوتی ہے اس کی جو ہو گا آئندہ
نہ ان کو جو کِیا اس پر ملال رہتا ہے
جو پیش کرتے ہیں قربانیاں ضرورت پر
مقام دل میں انہی کا بحال رہتا ہے
ہمیشہ یاد جو احسان اس کے رہتے ہیں
اسی کا سامنے حسن و جمال رہتا ہے
سب اس کی نعمتوں کا تذکرہ کروں کیسے
نہ حق ادا ہو یہ دل میں ابال رہتا ہے
کبھی تو خوف سے اڑتی ہے نیند بھی میری
کبھی نگاہ میں اس کا جلال رہتا ہے
مری فروتنی اور اس پہ اس کی دلداری
وہ مہربان ہمیشہ کمال رہتا ہے
چھلک کے اشکِ ندامت گرے جو آنکھوں سے
وہ اشک دل کو بھی میرے اجال رہتا ہے
خلوصِ دل سے محبّت کریں جو بندوں سے
خدا کے ایسے ہی بندوں کا کال رہتا ہے
اُٹھائے وسوسہ شیطان جب کوئی دل میں
یقیں خدا پہ مرا دل سنبھال رہتا ہے
نہیں غرور کبھی نیکیاں ہوئیں کوئی
گواہ اس پہ عرَقِِ انفعال رہتا ہے
وہ کیسے چھوڑے گا طارق مجھے کہ اس کے بغیر
وہ جانتا ہے کہ کیا میرا حال رہتا ہے

0
2