شُکر کرنے پہ خدا کا ، نہ کبھی مان کرو
سب عطا اس کی ہے ، تم کاہے کا احسان کرو
دل کے صحرا میں ازل سے جو صدا گونجی ہے
اس کو پہچانو، اُسی نُور کا وجدان کرو
جسم کی حد سے نکل جاؤ ، سمجھ جاؤ گے پھر
عشق کیا شے ہے، ذرا سوچ کے پیمان کرو
جو ملا ہے وہ اُسی ذاتِ ازل کی ہے عطا
شکر کے ساتھ ہر اک سانس کو قربان کرو
عارفِ وقت نے جو نقشِ حقیقت لکھا
جان کر اُس کو اُسے نفس کا نگران کرو
نفس جھک جائے تو پھر روح اُبھر آتی ہے
کارِ دل میں اسے تسلیم کا سلطان کرو
ہر طرف اُس کا ہی جلوہ ہے اگر دِل جاگے
دل کے آئینے کو ہی پردۂ عرفان کرو
دیکھو اک قطرہ ، سمندر کا امیں ہوتا ہے
کیسے اس راز سے تم خود کو ہو انجان کرو
خود کو مٹنے دو ، اگر پانا فنا کا در ہے
پھر بقا پا کے اسی ذات پہ ایقان کرو
عشق کی راہ میں ہو جائے تمہیں جو بھی نصیب
عقل بھٹکائے، چُنا دل کا ہی فرمان کرو
راہِ الفت میں قدم رکنے نہ پائیں طارقؔ
“عشق کرتے ہو تو پھر عشق کا اعلان کرو”
۔۔۔۔۔۔

0
6