بھڑکتی آگ کسی شمس میں مسلسل ہے
کہ ذرّہ ذرّہ اسی درس میں مسلسل ہے
کوئی تو نور بناتا ہے خاک یا پھر نار
تو زیست باقی ترے لمس میں مسلسل ہے
نگاہِ الفتِ ساقی نے بھر دیا ساغر
یہ کائنات تبھی رقص میں مسلسل ہے
چمن میں گل نہ مہک ہے اکیلی ہے بلبل
زمانہ ہجر کا ہی عکس میں مسلسل ہے
سکوں فراق میں مل جائے ہے کہاں ممکن
کہ انقلاب ترے نفس میں مسلسل ہے
بدل نہ پائے جو کرگس ہے اپنی فطرت میں
وقار جب کہ رُخِ ہنس میں مسلسل ہے
یہی تو وقت ہے اِس کو سنوار لینے کا
گریں گے اشک کہ دل حبس میں مسلسل ہے
قرار پائے گا طارق وصال پا کر ہی
کہ اضطراب کسی شخص میں مسلسل ہے

0
7