خدا کا شکر کہ سچ اس زباں سے پھوٹے تھے |
گلے کے طوق بڑی مشکلوں سے ٹوٹے تھے |
میں اپنے گھر کو جو پلٹا تو یہ سمجھ آیا |
کہ رہبروں نے مرے قافلے بھی لوٹے تھے |
حسین کٹ کے بھی جیتا ہے کیوں کہ حق پر تھا |
وہ قتل کر کے بھی ہارے ہیں کیوں کہ جھوٹے تھے |
چلو یہ تو مجھ پہ عیاں ہوا |
وہ جو تیرا میرا تھا رسم و رہ |
وہ جو مجھ کو تجھ سے تھا واسطہ |
وہ کہ منزلوں کا جو خواب تھا |
وہ جو رشتہ اپنا اٹوٹ تھا |
وہ فریب تھا وہ تو جھوٹ تھا |
بحر آزار پار کر آیا |
ایسا جیون گزار کر آیا |
میں تری ایک بوند کی خاطر |
اک سمندر نثار کر آیا |
کیسے جھپکے وہ اپنی پلکوں کو |
تجھ سے آنکھیں جو چار کر آیا |
ہماری آنکھ سے جو بہہ گیا ہے |
وہ آنسو اک کہانی کہہ گیا ہے |
سہے کب تک یہ دل بھی کج ادائی |
یہی کافی ہے جتنا سہہ گیا ہے |
فراوانیِ غم سے دیکھ فانی |
مرا قالب تو آدھا رہ گیا ہے |
وہ مشورہ بھی ہمیں آج کل نہیں دیتا |
وہ مسئلہ تو بتاتا ہے حل نہیں دیتا |
جڑیں ہی کاٹ دیں جن لوگوں نے درختوں کی |
انہیں گلہ ہے چمن سے کہ پھل نہیں دیتا |
یہ کل کی بات ہے مجھ سے تھی دوستی جس کی |
وہ اپنے وقت سے دو چار پل نہیں دیتا |