| تیرا ہیجان نہیں دل سے اترنے والا |
| زخم الفت ہے یہ ایسے نہیں بھرنے والا |
| اس کی کس بات پہ اب ہم کو یقیں آئے گا |
| وہ جو اک شخص ہے وعدوں سے مکرنے والا |
| ایسا لگتا ہے اسے میری طلب ہے پھر سے |
| ورنہ وہ ایسے نہ تھا ہنس کے گزرنے والا |
| آخری بار کئی بار خطائیں بخشیں |
| اب تو میں تجھ پہ بھروسہ نہیں کرنے والا |
| جب تلک مر کے نہ مٹی ہوئے تب تک فانی |
| اپنے اس پیٹ کا دوزخ نہیں بھرنے والا |
معلومات