‏مجھے کیا کیا نہ سننا پڑ رہا ہے
وفا کا عیب مہنگا پڑ رہا ہے
تمہارے بعد ہیں ویران رستے
مجھے تنہا ہی چلنا پڑ رہا ہے
کسی دن بن کے بادل آ کے برسو
یہ دل کا دریا سوکھا پڑ رہا ہے
‏تھے جتنے زعم سے محفل میں آئے
اب اتنے دکھ سے جانا پڑ رہا ہے
تمہیں اپنا مسیحا مانتا تھا
مرا دعوی تو جھوٹا پڑ رہا ہے
ہے اونچا گھر عدو کا ایک نعمت
مرے گھر پر بھی سایہ پڑ رہا ہے
‏ہے کتنا دکھ کہ تو بھی بے وفا تھا
زمانے کو بتانا پڑ رہا ہے
مرے گھر میں بھی آ پہنچی سیاست
حویلی کو گرانا پڑ رہا ہے

0
111