اس کی دہلیز پہ اک جلتا دیا چھوڑا ہے
یوں بہانے سے اسے حال بتا چھوڑا ہے
ایک دو خط ہیں حوالہ ہی مری چاہت کا
تو بتا اور مرے پاس بھی کیا چھوڑا ہے
کر کے برباد مجھے حال نہ پوچھا میرا
تم نے تو مجھ کو کراچی ہی بنا چھوڑا ہے
ایک تصویر بنائی ہے نئے کپڑوں میں
وعدہ بس عید منانے کا نبھا چھوڑا ہے
پیار میں لوگ بچھڑتے ہیں مگر دکھ تو یہ ہے
اس نے آخر میں مجھے ہو کے خفا چھوڑا ہے

0
94