| عہد رفتہ میں ہی کیوں وقت گزارا جائے |
| آ کے اب مل کہ ذرا حال سنوارا جائے |
| جرمِ الفت میں یہ دنیا مرا سر چاہتی ہے |
| اور یہ ضد کہ سرِ عام اُتارا جائے |
| خود بلایا بھی مگر حال نہ پوچھا میرا |
| اس کی محفل میں بھلا کون دوبارہ جائے |
| میرے ماں باپ کی عزت تھی مقابل ورنہ |
| اتنا آساں تو نہ تھا تجھ کو یوں ہارا جائے |
| پھر کوئی شام خیالوں میں گزاری جائے |
| پھر کسی رات تجھے دل سے پکارا جائے |
| ہم کو پردیس میں تو صرف خبر ملتی ہے |
| جب بھی دنیا سے کوئی جان سے پیارا جائے |
معلومات