| ہم رہتے ہیں ہر شخص کی تخریب سے واقف |
| لہجہ سے اداؤں کی بھی ترتیب سے واقف |
| دنیائے شکم سیر تجھے علم نہیں ہے |
| یہ بھوک نہیں ہے کسی تہذیب سے واقف |
| جو مجھ کو نصیحت کے ہیں درپے انہیں کہہ دو |
| ہونگے تو سہی عرصہِ تشبیب سے واقف |
| ہم کو نہ سنا شان سے دستار کی باتیں |
| ہم بھی ہیں تری صورتِ تغلیب سے واقف |
| یہ روز کے جھگڑے ہوں یا ملنے میں تکلف |
| ہو ترکِ تعلق کی بھی ترکیب سے واقف |
| اے یارِ ستم گر تری فنکاری کے صدقے |
| کہتے ہو نہیں ہجر کی تعذیب سے واقف |
معلومات