| بعد از اجتناب ہیں اب بھی |
| میری آنکھوں میں خواب ہیں اب بھی |
| وہ کبھی تو کتاب کھولے گا |
| منتظر کچھ گلاب ہیں اب بھی |
| تو ہی مجبوریوں کو روتا تھا |
| ہم تو حاضر جناب ہیں اب بھی |
| پھول کانٹے بھی آگ پانی بھی |
| پیار کے یہ حساب ہیں اب بھی |
| بعد از اجتناب ہیں اب بھی |
| میری آنکھوں میں خواب ہیں اب بھی |
| وہ کبھی تو کتاب کھولے گا |
| منتظر کچھ گلاب ہیں اب بھی |
| تو ہی مجبوریوں کو روتا تھا |
| ہم تو حاضر جناب ہیں اب بھی |
| پھول کانٹے بھی آگ پانی بھی |
| پیار کے یہ حساب ہیں اب بھی |
معلومات