| میں تھک گیا ہوں |
| روز و شب کی مسافتوں سے |
| دوستوں کی شرارتوں سے |
| تری بدلتی ان عادتوں سے |
| میں تھک گیا ہوں |
| مرے بھی سینے میں ایک دل ہے |
| خواہشیں ہیں، ضرورتیں ہیں |
| پہلے دن سے ہی میں نے خود کو |
| تمہاری دنیا میں قید رکھا |
| درد جھیلا، ہر حکم مانا |
| تم ہی بتاؤ مجھے ملا کیا؟ |
| اس شہر غم میں |
| میں اب سفر کر کر کے تھک گیا ہوں |
| فنا کی دنیا کا میں مسافر |
| اب اپنی منزل کو چل پڑا ہوں |
| تمہیں خبر ہو |
| کہ ایسے رستے کو جانے والے |
| کبھی نہ پلٹے۔ |
معلومات