Circle Image

عامر خان عامر

@aamirkhanaamir

عامر خان عامر

خوشبو کی طرح بھی وہ ہواؤں کی طرح سا
احساس مکمل کسی چھاؤں کی طرح سا
وہ پاس تو رہتا تھا، مگر ملتا کہاں تھا
سایہ جو تھا سورج کی اداؤں کی طرح سا
اک یاد کی بارش میں رہی لمس کی خوشبو
ہر پل تھا مرے پاس دعاؤں کی طرح سا

0
2
نگاہ میں چھپی ہوئی کوئی دعا، وہ کون تھا
جو صبح دم دکھا گیا تھا خواب سا، وہ کون تھا
ہوا چلی تو پھول سے وہ رنگ بھی لے کر چلی
چلے گئے سبھی مگر، جو رہ گیا، وہ کون تھا
جو سرکشی تھی روبرو، تو خامشی میں گفتگو
لبوں سے حرف کی طرح، رہا جدا، وہ کون تھا

0
9
بجھ ہی جائے گا ہر اک دیا آخرش
یاد دیپک کے جیسی، ضیا آخرش
خود سے خود کو چھپایا تھا میں نے بہت
کھل ہی جائے گا سب کیا؟ چھپا آخرش؟
اک مسافر تھا دل کی کسی رہگزر
وقت ٹھہرا نہیں، چل پڑا آخرش

0
10
یادوں کی رہگزر پہ سحر تک نمی رہی
دل بجھ گیا مگر وہ تمازت وہی رہی
رستے میں روشنی تھی مگر دھند بھی رہی
ہر موڑ پر سراب کی صورت لگی رہی
چاہت تھی اک چراغ جلائیں ہوا کے ساتھ
جلتا رہا وجود مگر تیرگی رہی

12
سوال لب پر ہے آج کس کا، خیال کیا ہے ؟
فلک پہ تاروں کی روشنی کا جمال کیا ہے؟
چراغ جلتے ہیں رات بھر بھی، مگر وہ آنکھیں
جو راہ تکتی ہیں، ان کے دل کا ملال کیا ہے؟
سکوتِ صحرا میں گونجتی ہیں دعائیں ہر سو
حرام رستے سے حاصلاتِ ، حلال کیا ہے؟

6
چاندنی، کہکشاں، روشنی میں،
خامشی، تیرگی، بے خودی میں،
گفتگو، بے صدا، بے کلی میں۔
ریت سی، بے نشاں، وسعتیں ہیں،
بے خبر، بے صدا، ساعتیں ہیں،
لب بہ لب، جاں بہ لب، وحشتیں ہیں۔

7
یہ جہاں خواب و سراب و ماجرا ہے، صرف لا ہے
جو سمجھتا ہے حقیقت، وہ دغا ہے، صرف لا ہے
جس کو تم ساگر سمجھتے ہو، گھٹا ہے، صرف لا ہے
نقش جو ٹھہرا ہوا ہے، اک نوا ہے، صرف لا ہے
چاند روشن ہے مگر پرچھائیاں بھی ساتھ چلتی
روشنی کا جو بھرم تھا، وہ فنا ہے، صرف لا ہے

9
ہوا کے نرم جھونکوں سا کوئی ارمان جاگا ہے
خیالِ یار کی آہٹ سے پھر امکان جاگا ہے
کسی پَل اس کی زلفوں سے لپٹتی شام بولی تھی
مرے چپ چاپ لہجے سے کہاں طوفان جاگا ہے؟ ؟
خموشی میں نہاں کتنی ندائیں چاپ رکھتی ہیں
جو خوشبو کی ردا اوڑھے، مرا وجدان جاگا ہے

6
تعبیر کی دہلیز پہ کچھ خواب، جلے ہیں
تقدیر کے اوراق پہ کیا باب، جلے ہیں
اک جھوٹ کی مانند ہے دھرتی کا بدن بھی
سورج سے کرن پائی تو مہتاب، جلے ہیں
لب پر جو تبسم تھا وہ سچ بول نہ پایا
نالوں کی خموشی میں مضراب جلے ہیں

7
چھتوں پہ خواب اڑاتے رہے بہاروں کے،
نظر نہ آئے نظارے بھی ریگزاروں کے۔
پتنگ جیسی تھی چاہت، ہوا کے رحم پہ تھی،
یہ کھیل قسمت کے تھے نہ اختیاروں کے
بسنت آئی تو کچھ رنگ آنکھ میں اترے،
جو آئینے تھے فقط عکس انتشاروں کے

12
یہ اشک کہ زم زم سی روانی میں ملا تھا
کیا نقش تھا، یادوں کی نشانی میں ملا تھا
جو آنچ تھی دل کی وہ زباں تک نہیں پہنچی
جب دھند کا پردہ بھی معانی میں ملا تھا
اک زخم جو دھڑکن میں دھڑکتا ہی رہا تھا
خاموش سا اک شور جوانی میں ملا تھا

11
روشنی تو ہے مگر، روشنی کہاں رہی
دل دھڑکتا رہ گیا، زندگی کہاں رہی
شور تھا فضا میں بھی، محفلیں سجی رہیں
زندگی سکون وہ اور خوشی کہاں رہی
خواب تھے مہک لیے لمس میں تھا سلسلہ
اک دیا وہ رتجگے شاعری کہاں رہی

9
جس نے شیشے کو معتبر جانا،
اپنی آنکھوں کو بے خبر جانا
خود کو محور بنا کے رکھا اور،
ساری دنیا کو منتشر جانا
سایہ بڑھتا گیا جو دھوپوں سے،
اپنی قامت کو تاجور جانا

0
8
اپنی باتوں کو معتبر جانا
اور تاروں کو بے خبر جانا
آئینے میں جو عکس ٹھہرا تھا
اس کو ہر زاویے کا در جانا
خود کو محور بنا کے رکھتا رہا
ساری دنیا کو منتشر جانا

0
6
یہاں ہر راہ تاریکی میں گم ہو کر مچلتی ہے
یہاں ہر چیخ خاموشی کے سینے سے نکلتی ہے
یہاں نیزے ہیں پنجوں میں، یہاں خنجر ہیں دانتوں میں
یہاں آتش دہن میں اور بجلی ہے نگاہوں میں
یہاں دریا کے پانی میں لہو کی لہر اٹھتی ہے
یہاں کچھ جسم تیرے ہیں، یہاں اک لاش اپنی ہے

10
حاکم کھڑا تھا جھوٹ کے انبار کے تلے
ماضی ملا ہمیں کسی تلوار کے تلے
سایہ بھی اپنے جسم سے آگے نہیں گیا
ہم بھی کھڑے ہیں وقت کی دیوار کے تلے
صدیوں سے ایک خواب تھا آنکھوں میں قید سا
سب لوگ سو رہے تھے کسی دار کے تلے

8
سینے میں تھا رکھا جو ، سہارا نہ ہو سکا
اشکوں میں تھا بھنور بھی کنارا نہ ہو سکا
پلکوں پہ آ کے رکھ گیا اک رات وہ چراغ
اور اس کے بعد صبح اشارا نہ ہو سکا
کتنے سخن نگاہ میں ٹھہرے، بکھر گئے
پر دل کا حال، حرف میں سارا نہ ہو سکا

9
یہ افکار روزن، یہ وہم و گماں
یہ آئینۂ دل، یہ نقشِ جہاں
یہ صدیوں کی گرداب لمحوں کے داغ
یہ تقدیرِ موہوم، آنسو فغاں
کبھی نکہتِ گل، کبھی خاکِ راہ
کبھی موجِ سرکش، کبھی آسماں

0
10
حقیقت کے پردے میں ہے راز پنہاں
ہے سائے میں الجھن، ہے خوابوں میں عنواں
یقیں ایک دریا، گماں ایک صحرا
ہے ہر موڑ دھوکہ، ہے ہر راہ حيراں
نظر کا فسوں ہے کہ دنیا کی گردش؟
سبھی عکس موہوم، ہر رنگ ویراں

7
حقیقت کے پردے میں ہے راز پنہاں
ہے سائے میں الجھن، ہے خوابوں میں عنواں
یقیں ایک دریا، گماں ایک صحرا
ہے ہر موڑ دھوکہ، ہے ہر راہ حيراں
نظر کا فسوں ہے کہ دنیا کی گردش؟
ہے ہر عکس موہوم، ہر رنگ ویراں

9
پھول کانٹوں پہ رہے، پلکوں پہ آزار جلے
بام پر آگ لگی، تکیے پہ انگار جلے
دشتِ دل جل اٹھا، خوشبو بھی دہکتے گزری
رات بھر آنکھ میں بکھرے ہوئی گلزار جلے
دھوپ سہنے کی سزا پائی درختوں نے مگر
سایہ دینے کے لیے شاخ ہی ہر بار جلے

14
نہ مجھ کو فکرِ فردا ہے، نہ رغبت خُلد میں میری
میں بس مستی میں زندہ ہوں، یہی دولت ہے دل گیری
نہ واعظ کی نصیحت پر، نہ زاہد کے بھرم پر ہوں
میں اپنے حال میں خوش ہوں، نہ خواہش ہے، نہ زنجیری
یہی میخانہ کافی ہے، یہی سجدہ مرا سچ ہے
یہاں ساقی کی محفل ہے، وہاں تسبیح و تدبیری

0
9
یہ جسم اصل خاک ہے، یہ روح عکسِ کہکشاں
یہ سانس مثلِ روشنی ہے زیست اپنی رازداں
میں وقت ڈھونڈتا رہا، یہ ہاتھ سے نکل گیا
تھی سوچ کتنی بے خبر، جو بات تھی وہ تھی کہاں
عدم کی سرحدوں پہ کچھ وجود گھومتا رہا
کہ راہ میں تھے دائرے، تھی اور سعی بے نشاں

11
فکر کی راہ میں کچھ نور کا امکان بھی ہو
بحث ہو، عقل ہو، منطق کا سامان بھی ہو
ہر صداقت کو تسلسل کی سند مل جائے
ہر سکوتِ میں کہ پنہاں کوئی ہیجان بھی ہو
زخم اتنے ہیں کہ محسوس نہیں ہوتا کچھ
کاش احساس کی دنیا میں کوئی جان بھی ہو

0
7
وہ سنگ خشت نہیں، حسرتوں کے مارے ہیں
جو اپنے نقش میں صدیوں کے زخم گاڑے ہیں
یہ چاندنی ہے کہ سائے لہو میں بھیگے ہیں؟
یہ روشنی ہے کہ بستی کے زخم سارے ہیں؟
یہ نقش و نگ کی تجلّی، یہ سنگ کی مورت
غموں کی راکھ میں جلتے ہوئے ستارے ہیں

0
9
دنیا کے اصولوں میں کہاں حُسنِ یقیں ہے؟
یہ جسم مکاں تو ہے، مگر کون مکیں ہے؟
سایہ بھی مرا ساتھ رہا دن کی حدوں تک
شب آئی تو معلوم ہوا، کب وہ کہیں ہے
دریا کی روانی میں ہے اک جھوٹ کی لرزش
ساحل پہ کھڑے لوگ سمجھتے ہیں، یقیں ہے

0
12
سایہ چھننے لگا بہانے سے
خوشبو آئی نسیم لانے سے
چاندنی راستے میں بہکی تھی
روشنی تھی نظر ملانے سے
ایک لمحہ بھی ایک دنیا تھی
بات نکلی تھی مسکرانے سے

0
11
محبت خود فریبی ہو تو رہ جاتی ہے رسوائی
نہ ہو سوزِ محبت تو بنے دردِ شکیبائی

48
محبت رسمِ تنہائی، فسانہ ہر سُخن ٹھہرا
ہوئی اشکوں کی بارش تو، تبھی گلشن چمن ٹھہرا
یہاں ہر ایک وعدہ تھا سرابِ آرزو لیکن
کبھی اُلفت کی بینائی ، یہی ظلمت کا فن ٹھہرا
وفا کی راہ میں کانٹے، جفا کے جشن ہر جانب
محبت تھی جو اک سجدہ، وہی جرمِ کہن ٹھہرا

0
7
یہ کائنات ہے مثلِ حبابِ خام ابھی
ادھوری بات کا باقی ہے اختتام ابھی
فریبِ گردشِ دوراں میں قید ہیں سب رنگ
کہ ہر نگاہ ہے گم کردہِ مقام ابھی
میں مثلِ کوہِ احد، صبر کی نشانی ہوں
ستم گزر بھی گیا، دل ہے زیرِ دام ابھی

0
15
ہاں، یہ سب خواب ہے، جاگے تو بکھر جائے گا
یہ جو لمحہ ہے، نظر بھر کے گزر جائے گا
زندگی نام ہے اک راز کے کھلنے کا مگر
جب سمجھ آئے، تبھی وقت مکر جائے گا
روشنی، سایہ، صدا، رنگ، یہ سب مایا ہیں
ہم جسے راہ سمجھتے ہیں، کدھر جائے گا

0
16
غزل
وہ شخص بے نشاں ہوا، سبھی عذاب لے گیا
چراغ کو بجھا دیا، وہ آفتاب لے گیا
کتابِ دل کے حرف بھی تھے خواب اور روشنی
رہے نہیں جو آنکھ میں، کوئی حساب لے گیا
کہ ایک خواب دیکھ کر، اداس تھے تمام شب

0
14
ہم نے دیا جلایا، کس نے بجھا دیا؟
شعلہ تھا دل میں روشن، کس نے جلا دیا؟
ہم نے امید رکھی، ہم نے دعا بھی کی
تقدیر نے مگر پھر، کیسے بھلا دیا؟
رہتا تھا جو نگاہوں میں، خواب بن کے کل
آنکھوں سے وہ نظارا، کس نے مٹا دیا؟

11
یہ درد بھی اب درد کی تصویر سے بڑھ کر
یہ درد بھی اب درد کی تصویر سے بڑھ کر
یہ زخم بھی اب چاکِ دلِ پیر سے بڑھ کر
یہ شام کسی خواب کی تعبیر بنی ہے
یہ ہجر بھی اب وصل کی تقدیر سے بڑھ کر
یہ میں ہوں کہ ہر سانس میں جینے کی ادا ہے

11
خاک کا خواب ہے، مٹی کا نظارہ دل ہے
وہی آشفتہ‌ سرِ باد، سہارا دل ہے
نور تھا، سایۂ دیوار میں گم کر بیٹھا
ایک ٹھوکر میں پڑا دیدہ و تارا دل ہے
چشمِ بینا نے تجھے خاک سے بالا دیکھا
عقل کہتی ہے مگر بوجھ کا مارا دل ہے

10
یہ دنیا خرابوں کی صورت سراسر
یہ خواہش کے دلدل، یہ ظلمت کے منظر
یہاں عقل زنجیر میں قید ہے، اور
یہاں دل کو حاصل نہیں کوئی محور
خرد رہ گئی ہے اسیرِ تکلّف
جُنوں بن گیا ہے اسیری کا جوہر

7
غزل
یہ کیسا دور ہے، کیسا نظام رکھا ہے؟
جہاں پہ ظلم کو حق کا پیام رکھا ہے
لہو کی بوند بھی بکتی ہے کوڑیوں کے عوض
ضمیر بیچ کے دنیا میں نام رکھا ہے
یہاں پہ بھوک ہے، غربت کی دھول اڑتی ہے

0
10
حرفِ دل کہنے چلے تھے، لب پہ آہیں جم گئیں
یاد کی سرگوشیاں تھیں، اور باتیں تھم گئیں

0
9
کچھ دھوپ نے شجر کو اشارہ نہیں کیا
اور وقت نے بھی کھیل دوبارہ نہیں کیا
کچھ خواب منتظر تھے کسی نیند کے مگر
آنکھوں نے رات بھر یہ گوارہ نہیں کیا
ہم نے بھی شورِ دریا، بڑے شوق سے سنا
لہروں نے بے بسی سے کنارہ نہیں کیا

0
21
اندھیروں میں گھرا رہبر نئی کوئی صدا مانگے
کوئی شامِ الم ڈھل کر سحر کی ابتدا مانگے
طلب کا ہے یہ عالم، ہر نفس اپنی دُعا مانگے
چراغِ دل جلا کے، شب نئی کوئی ضیا مانگے
یہاں ہر گام ُُ پرچھائی ٗٗ ہے مایوسی کی رستے پر
کوئی حرفِ یقیں لکھ دے، نیا نقشِ وفا مانگے

0
12
یہ اشک کیسے چراغوں میں ضم کیا جائے؟؟
حرم کے سامنے کوئی صنم کیا جائے ؟؟؟
عدم کی راہ میں یاں ہمسفر نہیں کوئی
غبارِ راہ کو ہی ہم قدم کیا جائے
چراغِ خواب کا جلنا ہے معجزہ شاید
یہ تیرگی کا سفر محترم کیا جائے

0
11
غزل
ہر سانس میں شامل تھا کوئی درد وفا سا
ملتا تھا مقدر سے کوئی رنج نیا سا
چہرے پہ نمایاں تھے کئی زخم پرانے
رہتا تھا وہ لب پہ تبسم کی ادا سا
بکھرے ہوئے لمحوں میں کہیں رات پڑی تھی

0
14
عدم سے پردہ ہٹے گا تو نور نکلے گا
وجود خاک سے پھر اک ظہور نکلے گا
یہ آسمان کا نیلا سکوت بولے گا
زمیں کے دشت سے کوئی تو طور نکلے گا
خموشیاں بھی سنائیں گی قصۂ وحدت
کہ اک نگاہ سے معنی ضرور نکلے گا

0
7
یہ سمندر، یہ کنارا، یہ سمٹتے منظر
ایک پل خواب کی صورت میں بکھرتے منظر
دل کی گہرائی میں جو آگ بھڑکتی ہے کہیں
ان کی تصویر ہیں شاید یہ سلگتے منظر
رات خاموش تھی لیکن یہ ہوا بول اٹھی
کچھ کہانی تھے زمیں کی یہ سسکتے منظر

8
کون اب منصف بنا ہے، تیرگی اب کیا کہیں؟
ہر صدا زنجیر میں ہے، بیکسی اب کیا کہیں؟
روشنی کا خون کر کے کہہ رہے ہیں اہلِ فن
قاتلوں کا قد بڑا ہے، بے بسی اب کیا کہیں؟
اہلِ دانش سر جھکائے، بے ضمیری معتبر
زیست کا ہر پل نیا ہے، بے خودی اب کیا کہیں؟

9
غزل
ہوتا ہے کبھی ایسا ، مُقدر نہ ہوا ہو
اک درد کا چرچا بھی مکرر نہ ہوا ہو
رہتا تھا ہمیشہ یہ گماں، ہار گئے ہم
جیتا تھا وہی بازی جو میسر نہ ہوا ہو
پانی کے بہاو پہ کھڑے خواب ہوں سارے

0
9
غزل
کتنا ویران ہوں، انجان ہوں، حیراں ہوں میں
دھوپ سہتا ہوا انسان ہوں، حیراں ہوں میں
لوح محفوظ پہ جلتا ہوا آدم میں ہوں
میں کہ یوسف کا بھی زندان ہوں، حیراں ہوں میں
زندگی مجھ سے پریشاں ہے، مگر میں تو نہیں

3
16
یہ دریا آنسو، تنہائی، سب بیچ دیے بازاروں میں
ہم خواب بھی اپنے چُن آئے کِن وحشت کی دیواروں میں
ہم اہل وفا مجبور رہے، ہر دور کے اپنے غم نکلے
کیوں مدت تک خاموش رہے پھر بھیگ گئے اظہاروں میں
دنیا کے تماشے کیا دیکھیں، ہر لمحہ بکے ایمان یہاں
سب نام و نسب نیلام ہوئے، بےمول کئی درباروں میں

11
ٹوٹا ہوا خیال بنانا نہیں پڑا
مجبوریوں کا ساتھ نبھانا نہیں پڑا
یہ حادثہ بھی درد کے زمرے میں آ گیا
ہم کو تمہارے سامنے آنا نہیں پڑا
چہرے پہ اپنے رنگ دکھانے پڑے نہیں
قصہ کوئی بھی دل کو سنانا نہیں پڑا

0
20
جہانِ شوق میں ہر لمحہ انقلاب بھی ہے
کہ ہر نفس میں بسا عشق کا سراب بھی ہے
نسیمِ صبح جو لائی پیامِ یارِ ازل
دلِ حزیں کے لئے بادہ و شراب بھی ہے
وفا کے دشت میں اب تک ہے جستجو باقی
یہ آہ و درد کی ہر گونہ اک کتاب بھی ہے

11
پہاڑ گونجیں تو بات ہو کچھ، کہ وحشتوں کی بھی مات ہو کچھ
یا درد سہنے کا وقت آئے، تو زندگی میں نجات ہو کچھ
خزاں کی رت میں بہار ڈھونڈیں، جو گزرے لمحوں کی یاد چھیڑیں
محبتوں کا سراغ ڈھونڈیں، کبھی تو دل میں حیات ہو کچھ
وہ زرد چہرہ، اداس آنکھیں، وہ خواب ٹوٹے، وہ بات جھوٹی
جو دل کے زخموں کو پھر سے بھر دے، سکون بخشے وہ رات ہو کچھ

0
4
محبتوں کا جہاں پھر سے آشکار ہوا
خیالِ یار سے لمحہ بھی بے قرار ہوا
ہوا کے دوش پہ خوشبو کو ایک راز ملا
کہ جیسے خواب کوئی جاوداں دیار ہوا
سکوتِ شب میں چھپا تھا سخن ہمارا جو
چراغِ دل سے یہ آتش فروغِ نار ہوا

0
8
جنوں تو جا چکا لیکن، نشاں اپنا تھا رستے میں
خیال و خواب جلتے تھے، دھواں اپنا تھا رستے میں
وہی شعلے، وہی قصے، وہی آنکھوں کی ویرانی
محبت دفن تھی ان میں، فغاں اپنا تھا رستے میں
سحر ہونے کو ہے لیکن، یہ دل مانے کہاں اس کو
اندھیروں کے تسلسل میں، جہاں اپنا تھا رستے میں

0
12
منتظر ہوں کہ ہواؤں سے کوئی بات بنے
دل کا موسم کبھی بارش کبھی برسات بنے
رات گہری ہو تو چندا کی طرح آ جائیں
وہ جو بچھڑے تھے کبھی، پھر سے ملاقات بنے

0
12
چاندنی رات میں سورج کو بلا کر جی لیں
خواب پلکوں پہ کوئی رنگ سجا کر جی لیں
اشک اپنے تو کبھی درد سے آزاد رہیں
بس کہ آئینہ بھی ہم خود سے جدا کر جی لیں
جانے کس موڑ پہ ہم ہار گئے تھے خود کو
یاد ماضی کو دوبارہ سے بلا کر جی لیں

0
11
آدم کے دل میں رسمِ عبادت نہیں ہے اب
اندھے ہیں روپ سارے بصارت نہیں ہے اب
دھرتی پہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہمزاد ہے کہاں
چہرے ہیں ایک جیسے شباہت نہیں ہے اب
سجدے غبارِ راہ ، سفر میں سکوں کہاں
پاؤں میں ایک چکر، فراغت نہیں ہے اب

0
9
ہجراں کے تماشے میں گزر جاتی ہیں راتیں
آنکھوں میں اترتی ہیں، بکھر جاتی ہیں راتیں
یادوں کی رفاقت سے چراغاں ہے دلوں میں
سجتی ہیں، سنورتی ہیں، نکھر جاتی ہیں راتیں
ہر شام جو ڈھلتی ہے دعاؤں کے اثر میں
خاموشی کے پردے میں سنور جاتی ہیں راتیں

0
9
یہ نظر کا شباب لگتا ہے
آپ کو کیا حساب لگتا ہے
آپ کے طنز میں بھی نرمی ہے
زخم بھی کچھ گلاب لگتا ہے
دل تو کہتا ہے آپ مانیں گے
پر یہ وعدہ سراب لگتا ہے

11
جو مرے عشق کی کمائی تھی
زندگی, تجھ پہ ہی لٹائی تھی
دل کا موسم گلاب جیسا تھا
پھر خزاں کیسے خاک لائی تھی
گھر جلایا تھا اس کی خواہش میں
آگ دریا میں کب بہائی تھی

11
کس طرح نغموں پہ کوئی ساز لائیں قمریاں
چشم تر کو پھیر دو، رہنے نہ پائیں قمریاں
کھو گیا سایہ بھی آخر گردشِ ایّام میں
دھوپ کے صحرا میں کب تک گیت گائیں قمریاں
بے زبانی کی لکیریں ہیں نظر کی خامشی
یاد کا دامن نہ چھوٹے، سر جھکائیں قمریاں

16