وادیٔ دل میں اُترنے کا ہنر آتا ہے
اپنے قدموں پہ ٹھہرنے کا ہنر آتا ہے
دھوپ بارش میں جو رکھتے ہیں شگفتہ چہرہ
ان کی چھاؤں میں سنورنے کا ہنر آتا ہے
وقت ہر درد کی پہچان کرا دیتا ہے
زخم سہہ سہہ کے نکھرنے کا ہنر آتا ہے
سب چراغوں کو ہواؤں میں جلائے رکھنا
ہمیں طوفانوں سے لڑنے کا ہنر آتا ہے
منزلیں خود ہی قدم چومنے آ جاتی ہیں
جب مسافت سے گزرنے کا ہنر آتا ہے
جذبِ شبیر ، جنونِ شہِ خیبر لے کر
ایسے دیوانوں کو مرنے کا ہنر آتا ہے

0
2