| یہ جہاں خواب و سراب و ماجرا ہے، صرف لا ہے |
| جو سمجھتا ہے حقیقت، وہ دغا ہے، صرف لا ہے |
| جس کو تم ساگر سمجھتے ہو، گھٹا ہے، صرف لا ہے |
| نقش جو ٹھہرا ہوا ہے، اک نوا ہے، صرف لا ہے |
| چاند روشن ہے مگر پرچھائیاں بھی ساتھ چلتی |
| روشنی کا جو بھرم تھا، وہ فنا ہے، صرف لا ہے |
| جسم کی صورت میں بہتی ندی کی مانند ہم سب |
| نام کا اک وہم ہے، باقی بقا ہے؟ صرف لا ہے |
| آسماں اور کہکشاں بھی سب گماں ہیں بس گماں ہے |
| گردشیں ہیں، خالی پن ہے، اور کیا ہے؟ صرف لا ہے |
| گفتگو میں نغمگی ہے، بولنے میں ساز ہیں پر |
| گونج میں جو کچھ بچا ہے، وہ صدا ہے؟ صرف لا ہے |
| دھوپ چھاؤں، رنگ، خوشبو، سب فریبِ دیدہ و دل |
| روپ میں بھی یہ جہاں سب بے بقا ہے، صرف لا ہے |
| یہ جہاں ذرّوں کی لرزش، اک سرابِ بے نشاں ہے |
| کون کہتا ہے کہ کچھ بھی ہے؟ ہوا ہے، صرف لا ہے |
| وقت بھی ہے اک گماں، یہ منحنی سا، موڑ کھاتا |
| جس کو ماضی، حال کہتے ہو، خطا ہے، صرف لا ہے |
| کائناتِ بے کراں بھی، کب صدا ہے، بس خلا ہے |
| سب حدود و مرزِ ہستی مبتلا ہے، صرف لا ہے |
| نقشِ ہستی کیا ہے عامر، استعارہ، اک ندا ہے |
| یہ سرابِ وقت بھی، اک التوا ہے، صرف لا ہے |
معلومات