غزل
وہ شخص بے نشاں ہوا، سبھی عذاب لے گیا
چراغ کو بجھا دیا، وہ آفتاب لے گیا
کتابِ دل کے حرف بھی تھے خواب اور روشنی
رہے نہیں جو آنکھ میں، کوئی حساب لے گیا
کہ ایک خواب دیکھ کر، اداس تھے تمام شب
سحر ہوئی تو نیند بھی کوئی سراب لے گیا
صدا کے ساتھ دم گھٹا، حنا بھی زرد ہو گئی
وہ زخم زخم چوڑیاں، وہ اضطراب لے گیا
ستارے ہاتھ میں رہے، قدم میں کربلا رہی
تمام خواب چھین کر ، وہ ماہتاب لے گیا
سرابِ زندگی میں تھا سوال رزق کا فقط
نصیب کا فریب تھا جو سب نصاب لے گیا
ہنوز چشمِ تر میں تھا وہ چرخ صبح و شام کا
جو بے صدا گزر گیا مرا شباب لے گیا

0
14