| اپنی باتوں کو معتبر جانا |
| اور تاروں کو بے خبر جانا |
| آئینے میں جو عکس ٹھہرا تھا |
| اس کو ہر زاویے کا در جانا |
| خود کو محور بنا کے رکھتا رہا |
| ساری دنیا کو منتشر جانا |
| سایہ بڑھتا گیا تو حیرت سے |
| اپنی قامت کو تاجور جانا |
| اپنی سانسوں کے دائرے باندھے |
| اور لمحوں کو بے ہنر جانا |
| خود پرستی کی سرحدوں میں رہا |
| اور خودی کو ہی بحر و بر جانا |
| خود کو موسم سمجھ کے بیٹھا جو |
| سارے پتوں کو بے ثمر جانا |
| دھوپ چھننے لگی تو تب عامر |
| اپنی سائے کو بے اثر جانا |
معلومات