فکر کی راہ میں کچھ نور کا امکان بھی ہو
بحث ہو، عقل ہو، منطق کا سامان بھی ہو
ہر صداقت کو تسلسل کی سند مل جائے
ہر سکوتِ میں کہ پنہاں کوئی ہیجان بھی ہو
زخم اتنے ہیں کہ محسوس نہیں ہوتا کچھ
کاش احساس کی دنیا میں کوئی جان بھی ہو
وہی مٹی، وہی موسم، وہی بادل، لیکن
کبھی اس خاک پہ برسے کوئی احسان بھی ہو
ہم نے سوچا تھا کہ الفاظ بدل دیں عامر
اب ضروری ہے کہ لہجہ کوئی طوفان بھی ہو

0
7