حاکم کھڑا تھا جھوٹ کے انبار کے تلے |
ماضی ملا ہمیں کسی تلوار کے تلے |
سایہ بھی اپنے جسم سے آگے نہیں گیا |
ہم بھی کھڑے ہیں وقت کی دیوار کے تلے |
صدیوں سے ایک خواب تھا آنکھوں میں قید سا |
سب لوگ سو رہے تھے کسی دار کے تلے |
چہرے پہ گرد وقت کی تحریر بن گئی |
منزل بھی چھپ گئی کسی اسرار کے تلے |
شہرِ خموش میں کوئی چیخے تو کس طرح |
ہر آہ دفن ہو گئی اظہار کے تلے |
سایہ خریدنے کو کھڑے تھے کئی بدن |
انساں پڑے تھے خاک پہ بازار کے تلے |
بچے کی آنکھ میں تھی جو روٹی بنی ہوئی |
بچپن سسک رہا تھا کسی بار کے تلے |
سورج کی جستجو میں کئی راہرو گئے |
عامر بھی جل بجھا تھا کسی نار کے تلے |
معلومات