محبت رسمِ تنہائی، فسانہ ہر سُخن ٹھہرا
ہوئی اشکوں کی بارش تو، تبھی گلشن چمن ٹھہرا
یہاں ہر ایک وعدہ تھا سرابِ آرزو لیکن
کبھی اُلفت کی بینائی ، یہی ظلمت کا فن ٹھہرا
وفا کی راہ میں کانٹے، جفا کے جشن ہر جانب
محبت تھی جو اک سجدہ، وہی جرمِ کہن ٹھہرا
نظامِ زر میں عصمت بھی ہوئی نذرِ تماشا اب
یہاں ہر درد کا قصہ فقط سود و سمن ٹھہرا

0
7