| یہ اشک کہ زم زم سی روانی میں ملا تھا | 
| کیا نقش تھا، یادوں کی نشانی میں ملا تھا | 
| جو آنچ تھی دل کی وہ زباں تک نہیں پہنچی | 
| جب دھند کا پردہ بھی معانی میں ملا تھا | 
| اک زخم جو دھڑکن میں دھڑکتا ہی رہا تھا | 
| خاموش سا اک شور جوانی میں ملا تھا | 
| وہ نام جو آنکھوں نے پکارا نہیں اب تک | 
| کیا سوز تھا، خاموش بیانی میں ملا تھا | 
| ہر شام وہ دہلیز پہ روٹھا سا کھڑا تھا | 
| اک درد جو بچپن کی کہانی میں ملا تھا | 
| جو شوق رہا دل میں وہ قرض تھا عامر | 
| اب سوچ رہا ہوں کہ گرانی میں ملا تھا | 
 
    
معلومات