| کس طرح نغموں پہ کوئی ساز لائیں قمریاں |
| چشم تر کو پھیر دو، رہنے نہ پائیں قمریاں |
| کھو گیا سایہ بھی آخر گردشِ ایّام میں |
| دھوپ کے صحرا میں کب تک گیت گائیں قمریاں |
| بے زبانی کی لکیریں ہیں نظر کی خامشی |
| یاد کا دامن نہ چھوٹے، سر جھکائیں قمریاں |
| تتلیوں کے رنگ تک ہیں خون میں بھیگے ہوئے |
| کس طرح گلزار میں جگنو بلائیں قمریاں |
| غم کی سرحد پر کھڑا ہے موسموں کا کارواں |
| کس طرح پھولوں کے جیسا مسکرائیں قمریاں |
| خاک پر بکھری پڑی ہے خواب کی ہر پنکھڑی |
| کب تلک آہوں کی خوشبو کو چھپائیں قمریاں |
| زخم دل کے بڑھ رہے ہیں ہر گھڑی کی چاپ پر |
| کب تلک اشکوں کے دریا کو بہائیں قمریاں |
| دیس کے صحرا میں بکھرے پیڑ بھی خالی ہوئے |
| کیسے ساون سے یہ بادل لے کہ آئیں قمریاں |
| شہر کی دیوار کا بس فیصلہ ہے خامشی |
| کس طرح نغموں کی تانوں کو سجائیں قمریاں |
| دھوپ کی زنجیر میں لپٹی ہوئی ہیں حسرتیں |
| کیسے ٹھنڈی چاندنی سے لو لگائیں قمریاں |
| خوف کی آندھی میں چھپتی جا رہی ہے چاندنی |
| کس طرح شب کی سیاہی کو مٹائیں قمریاں |
| زخم خوردہ شاخ پر بیٹھے ہیں ٹوٹے حوصلے |
| کیسے برگد کے سروں پر بیٹھ جائیں قمریاں |
| ریت پر جو لکھ رہے ہیں داستانِ زندگی |
| کیسے بکھرے لفظ جوڑیں، گنگنائیں قمریاں |
معلومات