جس نے شیشے کو معتبر جانا،
اپنی آنکھوں کو بے خبر جانا
خود کو محور بنا کے رکھا اور،
ساری دنیا کو منتشر جانا
سایہ بڑھتا گیا جو دھوپوں سے،
اپنی قامت کو تاجور جانا
اپنی سانسوں کو سنگ پر رکھا،
کیسے تیشے کا ہمسفر جانا
خود پرستی کی سرحدوں میں رہا،
اور خود کو ہی بحر و بر جانا
وقت لکھتا رہا جو ہر قصہ
داستانوں کو بے اثر جانا
خود کو موسم سمجھ کے بیٹھا جو
سارے پتوں کو بے ثمر جانا
وہ جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے
اس نے عالم کو مختصر جانا
نیند پانی میں بہہ گئی ساری
کس نے کروٹ کو دربدر جانا
دھوپ چھننے لگی تو تب عامر
اپنے سائے کو بے اثر جانا

0
8