یہ کائنات ہے مثلِ حبابِ خام ابھی
ادھوری بات کا باقی ہے اختتام ابھی
فریبِ گردشِ دوراں میں قید ہیں سب رنگ
کہ ہر نگاہ ہے گم کردہِ مقام ابھی
میں مثلِ کوہِ احد، صبر کی نشانی ہوں
ستم گزر بھی گیا، دل ہے زیرِ دام ابھی
خزاں کے رنگ سے نکھری ہے ایک سرگوشی
حروفِ زرد میں باقی ہے کچھ کلام ابھی
ستم کی قید میں زنجیر باندھے آنکھوں کو
امیدِ صبح کا پھر سے ہو اہتمام ابھی

0
15