| یہ کائنات ہے مثلِ حبابِ خام ابھی |
| ادھوری بات کا باقی ہے اختتام ابھی |
| فریبِ گردشِ دوراں میں قید ہیں سب رنگ |
| کہ ہر نگاہ ہے گم کردہِ مقام ابھی |
| میں مثلِ کوہِ احد، صبر کی نشانی ہوں |
| ستم گزر بھی گیا، دل ہے زیرِ دام ابھی |
| خزاں کے رنگ سے نکھری ہے ایک سرگوشی |
| حروفِ زرد میں باقی ہے کچھ کلام ابھی |
| ستم کی قید میں زنجیر باندھے آنکھوں کو |
| امیدِ صبح کا پھر سے ہو اہتمام ابھی |
معلومات