نگاہ میں چھپی ہوئی کوئی دعا، وہ کون تھا
جو صبح دم دکھا گیا تھا خواب سا، وہ کون تھا
ہوا چلی تو پھول سے وہ رنگ بھی لے کر چلی
چلے گئے سبھی مگر، جو رہ گیا، وہ کون تھا
جو سرکشی تھی روبرو، تو خامشی میں گفتگو
لبوں سے حرف کی طرح، رہا جدا، وہ کون تھا
جو روشنی بکھیرتا تھا راستے کی دھند میں
دکھا کے مجھ کو راہ خود ،جو گم ہوا ، وہ کون تھا
صدا کی اوٹ میں چھپا، سکوت کے لباس میں
ہزار چہرے اوڑھتا، تھا راز سا ، وہ کون تھا
چھلک گیا ہے آنکھ سے لو اب چھپا غبار بھی
وہ کس گلی میں رہ گیا، اے ہم نوا، وہ کون تھا
اے آئینے تو ہی بتا، کہ میں کہاں چلا گیا
نہ تھا کوئی، نہ ہوں کوئی، جو پھر بھی تھا، وہ کون تھا

0
9