یہاں ہر راہ تاریکی میں گم ہو کر مچلتی ہے |
یہاں ہر چیخ خاموشی کے سینے سے نکلتی ہے |
یہاں نیزے ہیں پنجوں میں، یہاں خنجر ہیں دانتوں میں |
یہاں آتش دہن میں اور بجلی ہے نگاہوں میں |
یہاں دریا کے پانی میں لہو کی لہر اٹھتی ہے |
یہاں کچھ جسم تیرے ہیں، یہاں اک لاش اپنی ہے |
یہاں سب گونجتے ہیں، کون خاموشی میں رہتا ہے؟ |
یہاں جو سر جھکائے، اس کا سر نیزے پہ رہتا ہے |
یہاں کچھ شیر بیٹھے ہیں، گھنے جنگل کے سائے ہیں |
یہاں کچھ بھیڑیے سرگوشیاں کرتے ہیں ہنستے ہیں |
یہاں ہر روز وحشت سے کوئی چہرہ نیا نکلے |
یہاں ہر رات کی کالی ردائیں خون پیتی ہیں |
یہاں سب راستے اک دائرے میں قید رہتے ہیں۔ |
یہاں ہر رات کی آغوش میں کچھ راز پلتے ہیں۔ |
یہاں سب چیختے ہیں، کوئی سننے کو نہیں آتا۔ |
یہاں سب بولتے ہیں، بات کوئی کہہ نہیں پاتا |
یہاں اک راہ دریا کے کنارے جا کے رکتی ہے۔ |
جہاں کاغذ کی کشتی بھی ہمیشہ ڈوب جاتی ہے۔ |
معلومات