| اندھیروں میں گھرا رہبر نئی کوئی صدا مانگے |
| کوئی شامِ الم ڈھل کر سحر کی ابتدا مانگے |
| طلب کا ہے یہ عالم، ہر نفس اپنی دُعا مانگے |
| چراغِ دل جلا کے، شب نئی کوئی ضیا مانگے |
| یہاں ہر گام ُُ پرچھائی ٗٗ ہے مایوسی کی رستے پر |
| کوئی حرفِ یقیں لکھ دے، نیا نقشِ وفا مانگے |
| سکوتِ شب میں گونجے پھر کوئی آوازِ بیداری |
| ہوا کے سرد لہجے سے کوئی تازہ نوا مانگے |
| یہاں ہر درد کی دہلیز پر دستک سی رہتی ہے |
| کوئی مرہم، کوئی راحت کوئی حرفِ شفا مانگے |
| جو بکھری ہیں ہوائیں تو کوئی عامر صبا ڈھونڈے |
| زمانہ خواب مت بیچے، زمانہ راستہ مانگے |
معلومات