| رات کی گود میں جگتا ہوا تارا ہے کوئی |
| درد کے ساتھ رفاقت کا حوالہ ہے کوئی |
| دل کے ویرانے میں آشوبِ محبت کیا ہے |
| ایک ہنستے ہوئے مقتل کا تماشا ہے کوئی |
| وقت کے ساتھ ہی کیوں زخم نیا کھلتا ہے |
| یہ تو زنجیر ہے، صدیوں کا تقاضا ہے کوئی |
| جس کو سمجھا تھا شفا، درد کی صورت نکلا |
| پھول کے ساتھ ہی کانٹے بھی اگاتا ہے کوئی |
| آئینہ دیکھ کے بھی چپ رہا دل کا زنداں |
| کون سمجھے کہ خموشی کی صدا سا ہے کوئی |
| زندگی کا ہے تماشا بھی اسی کے دم سے |
| موت کے لب پہ بھی ہنستا ہوا نعرہ ہے کوئی |
| اک شکستہ سا عصا دہر کے صحرا کے لیے |
| میری تنہائی کا تنہا ہی سہارا ہے کوئی |
معلومات