تعبیر کی دہلیز پہ کچھ خواب، جلے ہیں
تقدیر کے اوراق پہ کیا باب، جلے ہیں
اک جھوٹ کی مانند ہے دھرتی کا بدن بھی
سورج سے کرن پائی تو مہتاب، جلے ہیں
لب پر جو تبسم تھا وہ سچ بول نہ پایا
نالوں کی خموشی میں مضراب جلے ہیں
دنیا تو سدا پیاس بجھانے میں رہی ہے
دریا ہی مگر پیاس سے بے تاب، جلے ہیں
اب کرب کے کاغذ پہ فقط راکھ لکھی ہے
اک عمر جلی سوچ میں تالاب جلے ہیں
جو حرف تھے سینے میں تڑپتے ہوئے عامر
اک روز وہی درد کے اسباب جلے ہیں

7