| جو درد کے اندر رہا آباد، یہیں ہے |
| اک اشک جو بہتا نہیں، فریاد، یہیں ہے |
| ہم اپنے تصور کو ہی در کہتے رہے ہیں |
| سب قافلہ و منزل و صیاد، یہیں ہے |
| دنیا نے سمجھ رکھا ہے خاموش مجھے پر |
| اک شور تھا باطن میں جو ، آباد، یہیں ہے |
| کیا پوچھتے ہو ترک تعلق کا سبب تم |
| جو حبس کی دیوار تھی بنیاد، یہیں ہے |
معلومات