یادوں کی رہگزر پہ سحر تک نمی رہی |
دل بجھ گیا مگر وہ تمازت وہی رہی |
رستے میں روشنی تھی مگر دھند بھی رہی |
ہر موڑ پر سراب کی صورت لگی رہی |
چاہت تھی اک چراغ جلائیں ہوا کے ساتھ |
جلتا رہا وجود مگر تیرگی رہی |
اک شام میرے صحن میں آ کر ٹھہر گئی |
سورج تو ڈوبتا گیا، پر چاندنی رہی |
سایہ تھا میرے ساتھ مگر راستہ نہیں |
دنیا میں سب تھا ساتھ مگر بے خودی رہی |
اک پل کسی خیال کی میں راکھ ہو گیا |
اور خاک کے وجود میں آشفتگی رہی |
بچپن سے تتلیاں تو سبھی اڑ چکیں مگر |
پھولوں پہ پھر بھی رنگ رہے روشنی رہی |
شیشے بکھر گئے تھے، صدا بھی نہ تھی مگر |
پہچان رہ گئی، کوئی دیوانگی رہی |
اب عکس دیکھتے ہیں تو حیرت میں ڈوب کر |
چہرہ بدل گیا ہے تو کیوں بے بسی رہی |
زنجیر کے خیال میں، زنجیر رہ گئی |
دیوار گر چکی تھی مگر خامشی رہی |
لکھنے کو کچھ نہیں تھا سو آنکھیں رقم ہوئیں |
کاغذ پہ ایک بوند گری، شاعری رہی |
معلومات