جہانِ شوق میں ہر لمحہ انقلاب بھی ہے |
کہ ہر نفس میں بسا عشق کا سراب بھی ہے |
نسیمِ صبح جو لائی پیامِ یارِ ازل |
دلِ حزیں کے لئے بادہ و شراب بھی ہے |
وفا کے دشت میں اب تک ہے جستجو باقی |
یہ آہ و درد کی ہر گونہ اک کتاب بھی ہے |
فلک پہ نور کا عالم ہے یا تجلیٔ عشق |
ستارہ رات کے دامن میں ماہتاب بھی ہے |
شکستِ خواب بھی، امید کا سہارا بھی |
کہ زندگی میں سکوں کا نیا حساب بھی ہے |
بیاں میں لحنِ عجم اور دل میں دردِ عرب |
یہ ساز و نغمۂ دل عشق کا نصاب بھی ہے |
معلومات