جہانِ شوق میں ہر لمحہ انقلاب بھی ہے
کہ ہر نفس میں بسا عشق کا سراب بھی ہے
نسیمِ صبح جو لائی پیامِ یارِ ازل
دلِ حزیں کے لئے بادہ و شراب بھی ہے
وفا کے دشت میں اب تک ہے جستجو باقی
یہ آہ و درد کی ہر گونہ اک کتاب بھی ہے
فلک پہ نور کا عالم ہے یا تجلیٔ عشق
ستارہ رات کے دامن میں ماہتاب بھی ہے
شکستِ خواب بھی، امید کا سہارا بھی
کہ زندگی میں سکوں کا نیا حساب بھی ہے
بیاں میں لحنِ عجم اور دل میں دردِ عرب
یہ ساز و نغمۂ دل عشق کا نصاب بھی ہے

11