یہ درد بھی اب درد کی تصویر سے بڑھ کر |
یہ درد بھی اب درد کی تصویر سے بڑھ کر |
یہ زخم بھی اب چاکِ دلِ پیر سے بڑھ کر |
یہ شام کسی خواب کی تعبیر بنی ہے |
یہ ہجر بھی اب وصل کی تقدیر سے بڑھ کر |
یہ میں ہوں کہ ہر سانس میں جینے کی ادا ہے |
یہ عشق بھی اب موت کی توقیر سے بڑھ کر |
یہ لمس بھی جیسے کوئی پتھر کی لکیریں |
یہ زخم بھی اب تیغ کی تقدیر سے بڑھ کر |
یہ شہر بھی اب زیست کی پہچان میں گم ہے |
یہ آگ بھی اب سردیٔ شبگیر سے بڑھ کر |
یہ سوچ رہا ہوں کہ ترا غم بھی مٹاؤں |
یہ بوجھ بھی اب راحتِ تدبیر سے بڑھ کر |
یہ عمر بھی اک عکس کی مانند رکی ہے |
یہ وقت بھی اب خواب کی تعبیر سے بڑھ ک |
یہ آنکھ بھی کب خشک سمندر کی طرح ہے |
یہ شعر بھی اب اشک کی تفسیر سے بڑھ کر |
یہ لفظ جو عامر کی صداؤں میں ہے زندہ |
یہ درد کہ اب شوق کی تشہیر سے بڑھ کر |
معلومات