| ایک تھا وحشت کا ساماں ، ایک ہی رنج و الم |
| اب رہا بس ایک کمرہ، ایک بستر، ایک غم |
| ہجر کی بارش میں بھیگی، راکھ جیسی زندگی |
| ایک کچی سی کتابت، ایک ٹوٹا سا قلم |
| سانس لیتا درد کوئی، نیند کوئی یا گماں |
| ایک آدھا سا تماشا ایک خالی سا بھرم |
| دل خدا سے بھی خفا تھا، خود سے بھی الجھا رہا |
| نسبتیں بھی رہ گئیں اور رہ گئی ہر اک قسم |
| ہم نے عامر جو بھی چاہا جب ملا بے رنگ تھا |
| عشق جلتی خامشی تھا، دوستی بےنام غم |
معلومات