ہوا کے نرم جھونکوں سا کوئی ارمان جاگا ہے |
خیالِ یار کی آہٹ سے پھر امکان جاگا ہے |
کسی پَل اس کی زلفوں سے لپٹتی شام بولی تھی |
مرے چپ چاپ لہجے سے کہاں طوفان جاگا ہے؟ ؟ |
خموشی میں نہاں کتنی ندائیں چاپ رکھتی ہیں |
جو خوشبو کی ردا اوڑھے، مرا وجدان جاگا ہے |
کبھی یادِ گریزاں کی صداؤں کے تعاقب میں |
کسی سنسان رستے سے، کوئی دیوان جاگا ہے |
رتوں کے رنگ سے عامر کبھی مصرعے نکھرتے تھے |
کبھی ساون کی بارش سے نیا عنوان جاگا ہے |
معلومات