| ہاں، یہ سب خواب ہے، جاگے تو بکھر جائے گا |
| یہ جو لمحہ ہے، نظر بھر کے گزر جائے گا |
| زندگی نام ہے اک راز کے کھلنے کا مگر |
| جب سمجھ آئے، تبھی وقت مکر جائے گا |
| روشنی، سایہ، صدا، رنگ، یہ سب مایا ہیں |
| ہم جسے راہ سمجھتے ہیں، کدھر جائے گا |
| آس باندھی تھی جہاں، ریت اڑا دی اُس نے |
| کیسے دریا کا کسی صحرا میں اثر جائے گا |
| زخم ایسا ہے کہ مرہم بھی لہو روتا ہے |
| درد کہتا ہے کہ اب لمس بھی سَر جائے گا |
| جس کو دیکھا تھا کسی خواب کی تعبیر بنا |
| وہ سرِ شام ہی آنکھوں سے اتر جائے گا |
| اک صدا گونج رہی ہے لبِ ہستی پہ ابھی |
| وقت آئے گا تو یہ راگ بھی گھر جائے گا |
| کہکشاؤں کی مسافت کو سفر سے نکلا |
| وہ بھی سایوں کی رفاقت میں اجڑ جائے گا |
| رفتہ رفتہ یہ مشینیں ہی کریں گی تسخیر |
| آدمی ہوگا مگر خواب ہی مر جائے گا |
| یہ جو دیوار ہے، آواز کے آگے حائل |
| کل یہی شور بنے گا تو سنور جائے گا؟ |
| کوئی منظر بھی حقیقت میں ٹھہرتا کب ہے |
| آئینے میں بھی کہاں عکس ٹھہر جائے گا؟؟؟ |
معلومات