| وقت ٹھہرا نہیں، ہم رکے بھی نہیں |
| ساتھ چلتے رہے، پر ملے بھی نہیں |
| خواب آنکھوں میں اپنی جلے رات بھر |
| جاگتے رہ گئے ، ہم سوئے بھی نہیں |
| زندگی کا سفر گردشوں میں رہا |
| پاؤں تھکتے رہے، ہم چلے بھی نہیں |
| ہم نے لمحوں کو کاغذ پہ رہنے دیا |
| لفظ جڑتے رہے، پر جڑے بھی نہیں |
| سب کی قیمت تھی دنیا کے بازار میں |
| کتنے انمول تھے، ہم بکے بھی نہیں |
| دار تک لے گئی بات سچ جو کہی |
| وہ رکے بھی نہیں، ہم لٹے بھی نہیں |
| شعر بکتا رہا، شہر کے بیچ میں |
| اپنی نظموں سے رشتے بنے بھی نہیں |
| ہم کہ عامر کبھی آندھیوں سے گھرے |
| پاؤں پتھر سے تھے ، ہم اڑے بھی نہیں |
معلومات