| غزل |
| یہ کیسا دور ہے، کیسا نظام رکھا ہے؟ |
| جہاں پہ ظلم کو حق کا پیام رکھا ہے |
| لہو کی بوند بھی بکتی ہے کوڑیوں کے عوض |
| ضمیر بیچ کے دنیا میں نام رکھا ہے |
| یہاں پہ بھوک ہے، غربت کی دھول اڑتی ہے |
| وہاں محل کے دریچوں میں جام رکھا ہے |
| گلی گلی میں یہاں غیرتوں کے سودے میں |
| یہ کس نے جسم کو ارزاں غلام رکھا ہے؟ |
| خموش لب ہیں، سلاسل میں قید ہیں آہیں |
| یہ کس نے خواب کو ہم پر حرام رکھا ہے |
| یہاں تو لفظ بھی نایاب ہوگئے کب سے |
| یہاں تو سوچ پہ پہرا مدام رکھا ہے |
| سوال کرتا ہے انساں وجود کا اپنے |
| کہ کیوں جہاں میں مجھ سا غلام رکھا ہے؟ |
| ستم کی رات کا سورج بھی ڈھل ہی جائے گا |
| فلک نے وقت کا اپنا نظام رکھا ہے |
معلومات