چھتوں پہ خواب اڑاتے رہے بہاروں کے،
نظر نہ آئے نظارے بھی ریگزاروں کے۔
پتنگ جیسی تھی چاہت، ہوا کے رحم پہ تھی،
یہ کھیل قسمت کے تھے نہ اختیاروں کے
بسنت آئی تو کچھ رنگ آنکھ میں اترے،
جو آئینے تھے فقط عکس انتشاروں کے
محبتیں بھی بسنتی پتنگ سی نکلیں،
کہ زخم رہ گئے بس ہاتھ میں سہاروں کے
ہوا کی چال نے موسم بدل دیے کتنے،
بدن پہ زخم رہے تھے وفا شعاروں کے
جو ڈور کچی تھی، وہ ساتھ چھوڑ بیٹھی ہے،
بکھر گئے ہیں تعلق بھی اعتباروں کے
ہمیشہ پیچا رہا خواب اور حقیقت کا،
بہار آئی تو بکھرے خیال خاروں کے۔
ہماری جیت بھی عامر کہ ہار نکلی تھی
محبتوں کے سفر تھے فقط خساروں کے۔

12