| چھتوں پہ خواب اڑاتے رہے بہاروں کے، |
| نظر نہ آئے نظارے بھی ریگزاروں کے۔ |
| پتنگ جیسی تھی چاہت، ہوا کے رحم پہ تھی، |
| یہ کھیل قسمت کے تھے نہ اختیاروں کے |
| بسنت آئی تو کچھ رنگ آنکھ میں اترے، |
| جو آئینے تھے فقط عکس انتشاروں کے |
| محبتیں بھی بسنتی پتنگ سی نکلیں، |
| کہ زخم رہ گئے بس ہاتھ میں سہاروں کے |
| ہوا کی چال نے موسم بدل دیے کتنے، |
| بدن پہ زخم رہے تھے وفا شعاروں کے |
| جو ڈور کچی تھی، وہ ساتھ چھوڑ بیٹھی ہے، |
| بکھر گئے ہیں تعلق بھی اعتباروں کے |
| ہمیشہ پیچا رہا خواب اور حقیقت کا، |
| بہار آئی تو بکھرے خیال خاروں کے۔ |
| ہماری جیت بھی عامر کہ ہار نکلی تھی |
| محبتوں کے سفر تھے فقط خساروں کے۔ |
معلومات