| خموشی میں گونجی ہے اک داستاں |
| یہ آنکھیں جو نم ہیں، بتائیں کہاں؟ |
| یہ عزت یہ غیرت یہ سود و زیاں |
| میں جنگل کی وہ دھڑکنِ ناگہاں |
| مرے نام پر کتنے دفتر کھلے |
| زباں کٹ گئی، درد لب پر جلے |
| مجھے چپ کی رہ میں کانٹے ملے |
| مرے چیخنے پر بھی شعلے جلے |
| کبھی میں تھی شب کی سنہری دعا |
| کبھی دن کے ماتھے پہ جلتا دیا |
| کبھی روشنی تو کبھی بے صدا |
| فقط میرا جینا خطا ہی خطا |
| یہ غیرت کی تختی یہ جھوٹا نظام |
| یہ رشتوں کے بندھن یہ عزت یہ نام |
| یہ الفاظ، نظریں یہ جھوٹا کلام |
| روایت کے ناموں پہ جاری حرام |
| یہ نوچوں میں چھپتا ہوا احترام |
| یہ پردوں میں چھپتا ہوا انتقام |
| مجھے بیچ آیا تھا بازار کون؟ |
| یہ پرزے بدن کے، یہ خوابوں کا خون |
| یہ عزت یہ غیرت یہ سود و زیاں |
| میں جنگل کی وہ دھڑکنِ ناگہاں |
| نہ چیخوں نہ بولوں نہ مانگوں جہاں |
| فقط جنگلوں سے میں مانگوں اماں |
معلومات