| بجھ ہی جائے گا ہر اک دیا آخرش |
| یاد دیپک کے جیسی، ضیا آخرش |
| خود سے خود کو چھپایا تھا میں نے بہت |
| کھل ہی جائے گا سب کیا؟ چھپا آخرش؟ |
| اک مسافر تھا دل کی کسی رہگزر |
| وقت ٹھہرا نہیں، چل پڑا آخرش |
| وہ بھی کس سے الجھتا رہا عمر بھر |
| آئینہ خود کو سمجھا تھا کیا آخرش |
| چند لمحوں کا رشتہ رہا روشنی |
| پھر اندھیرا ہی تھا راستہ آخرش |
| خواب آنکھوں پہ رکھ کر چلا تھا کبھی |
| ریت پر بن گیا، نقشِ پا آخرش |
| پھر کوئی گیت لب پر بھی آیا نہیں |
| بج گیا سازِ دل، بے صدا آخرش |
| اک چراغِ جنوں لے کے نکلا تھا میں |
| میں نے سچ کہہ دیا، بس ہوا، آخرش |
معلومات