وہ سنگ خشت نہیں، حسرتوں کے مارے ہیں
جو اپنے نقش میں صدیوں کے زخم گاڑے ہیں
یہ چاندنی ہے کہ سائے لہو میں بھیگے ہیں؟
یہ روشنی ہے کہ بستی کے زخم سارے ہیں؟
یہ نقش و نگ کی تجلّی، یہ سنگ کی مورت
غموں کی راکھ میں جلتے ہوئے ستارے ہیں
یہاں پہ اشکوں کی تحریر دفن ہے شاید
یہاں پہ وقت کے ماتم کے استعارے ہیں
یہ کون لوگ تھے، جن کے لہو سے قائم ہے؟
یہ کس کی آہ کے سائے یہاں سدھارے ہیں؟
یہاں پہ لمحۂ ماضی کی چیخ زندہ ہے
یہاں پہ گردشِ ایام کے اشارے ہیں
خموش رنگ میں لپٹی ہے اک صدائے فغاں
یہ حسنِ سنگ نہیں، درد کے نظارے ہیں
یہاں پہ عہدِ ستم کی صدا مہکتی ہے
یہاں پہ خون سے لپٹے ہوئے ستارے ہیں
یہی وہ قصرِ الم ہے کہ جس کی دہلیزوں
پہ وقت بیٹھ کے رویا ہے، روپ ہارے ہیں

0
9