Circle Image

Hamid Zubair

@Hamid

جلوے الگ حسین رُخِ ماہتاب کے
سونے پہ ہیں سہاگہ اشارے جناب کے
لب تیرے جیسے ساغَر و مینا ہیں ساقیا
نظروں میں ہیں سرور سے مثلِ شراب کے
جادو یوں چل گئے مرے دل پر دماغ پر
اس حسنِ بے مثال کے تیرے شباب کے

22
مجھے دیدِ ناگہاں سے تو نہ دیکھ یار میرے
کہ گھٹا کے درمیاں سے تو نہ دیکھ یار میرے
تری اجنبی نگاہیں مجھے مار دیں گی ظالم
یوں نگاہِ دشمناں سے تو نہ دیکھ یار میرے
مرے دل کا آشیانہ جو بنا ہے تیری خاطر
تو دریچہ ءِ سراں سے تو نہ دیکھ یار میرے

9
اپنا بنانے والے بھی شاید اور ہوں گے
مجھ کو ہنسانے والے بھی شاید اور ہوں گے
تیری محبتوں نے بس غم ہی غم دیے ہیں
خوشیاں دلانے والے بھی شاید اور ہوں گے
جس دل کو میں نے تیری راہوں میں تھا بچھایا
اس دل کو ٹھوکروں سے ظالم تو نے اڑایا

12
ان الفتوں کے قصے کیوں کر لٹک رہے ہیں
کیوں پیار کرنے والے رستے بھٹک رہے ہیں
دو جسم ایک جاں تھے اب تک جو یار دونوں
ہاتھوں کو اس طرح سے اب کیوں جھٹک رہے ہیں
شاید کہ چاہتوں میں اب وہ اثر نہیں ہیں
دل توڑ کر جو دلبر پاؤں پٹک رہے ہیں

13
عزتیں ملتی نہیں جھوٹے خطابوں سے کبھی
خوشبو آتی نہیں کاغذ کے گلابوں سے کبھی
ہم جہاں سے تو سدا عیب چھپا رکھتے ہیں
کس طرح پائیں گے چھٹکارا حسابوں سے کبھی
دل سے مجبور ہیں انسان بندھے رہتے ہیں
عشق ہوتا نہیں محدود طنابوں سے کبھی

16
بےحس جو یہ اتنا ہوا کیوں کر ہوا انساں
اشرف تھا زمانے میں جو اژدر ہوا انساں
وہ ظرف وہ اقدار وہ رتبہ ہے کہاں اب
انسان کے معیار سے کم تر ہوا انساں
پتھر کا زمانہ تھا تو مخمل تھی طبیعت
مخمل کا زمانہ ہے تو پتھر ہوا انساں

10
شمع الفت کی جلا کر جو بجھا دیتے ہیں
بیگناہوں کو یوں الفت کی سزا دیتے ہیں
بھول جاتے ہیں یہ کچھ روز محبت کر کے
کب یہاں لوگ وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں
کتنے بیدرد ہیں بے حس ہیں زمانے والے
روز ہی دل کو نیا روگ لگا دیتے ہیں

21
میرے دلبر مرے دلدار مجھے چھوڑ گئے
وقت بدلا تو سبھی یار مجھے چھوڑ کئے
اب غموں سے ہے مرا درد سے ہی یارانہ
میرے ہمدم مرے غم خوار مجھے چھوڑ گئے
پیار نے یاروں عزیزوں نے جو چھوڑا ہے مجھے
اس لیے خوشیوں کے اشعار مجھے چھوڑ گئے

15
میں درد و الم کا مکمل جہاں ہوں
محبت میں اک ذرہ ءِ بے نشاں ہوں
مجھے یادوں کا درد و غم کا نشہ ہے
مجھے ہوش کب ہے میں یارو کہاں ہوں
محبت نے ڈھائے ستم کیسے کیسے
کہ ظلم و ستم کا میں خود رازداں ہوں

23
جب بھی مشکل میں ہم نے پکارا نبی
بے کسوں کا بنے ہیں سہارا نبی
ہر بھنور میں سدا ساتھ پایا انھیں
ڈوبتوں کے لیے ہیں کنارا نبی
مشکِلو چھوڑ دا ان غلاموں کی جاں
ہر مصیبت زدہ کا سہارا نبی

32
تنہا ہوں میر شاہ ترے بعد آج کل
تڑپاتی ہے صِفَت کو تری یاد آج کل
لگتا نہیں جہان میں دل ہی ترے بنا
خود سے خفا ہوں خود سے ہوں ناشاد آج کل
تو جو گیا ہے یار مری جاں چلی گئی
کوئی نہ ہم قدم ہے نہ ہمزاد آج کل

29
خودی کو خود میں فنا کرو تم
یوں ختم اپنی انا کرو تم
محبتیں رب کی بے بہا ہیں
تو عشق بھی بے بہا کرو تم
ان ایک سانسوں میں ذکر اسکا
یوں دھڑکنوں میں ثنا کرو تم

1
32
چھوڑ جاتے ہیں سدا چھوڑ کے جانے والے
کتنے بےبس ہیں یہاں ساتھ نبھانے والے
جس کا بس چلتا ہے وہ زخم نیا دیتا ہے
لوگ ملتے نہیں اب درد مٹانے والے
دوستی، عشق و محبت پہ انا بھاری ہے
اب کہاں لوگ وہ روٹھوں کو منانے والے

2
24
کب یہ آنسو کسی پتھر پہ اثر کرتے ہیں
ہم تو رو رو کے یوں ہی چاک جگر کرتے ہیں
جن کی چاہت میں کبھی تڑپے کبھی روئے ہم
وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یوں ہی مکر کرتے ہیں
درد اپنا ہے تو محسوس ہمیں ہی ہو گا
آرزو غیر سے مرہم کی مگر کرتے ہیں

14
صبحِ نو کے یہاں پیغام الگ ہوتے ہیں
دل کے جذبات سرِ شام الگ ہوتے ہیں
لوگ بہروپ بدلتے ہیں یہ کیسے کیسے
باتیں الفت کی مگر کام الگ ہوتے ہیں
دو قدم ساتھ چلے چھوڑ گئے لوگ یہاں
منزلیں اور یہاں گام الگ ہوتے ہیں

37
کیوں حاکم عیش پہ عیش کریں
کیوں لوگ وطن کے روئیں گے
کیا پاک وطن ہے امیروں کا
کیوں بوجھ غریب ہی ڈھوئیں گے
جو لوگ فقط ہیں مطلب کے
لالچ کے جن میں ڈیرے ہیں

23
خواہشوں کی طلب ہم جدا رکھتے ہیں
اپنی آنکھوں میں شرم و حیا رکھتے ہیں
جن سے پیماں نہ کوئی نبھائے گئے
ہم سے کیوں آرزوئے وفا رکھتے ہیں
کیوں زمانے کے لوگو خفا ہم سے ہو
ہم تو خود سے ہی خود کو خفا رکھتے ہیں

2
33
ہمدرد ہم کو ایسے ہی باریاب آئے
سب درد زندگی میں پھر بے حساب آئے
اک جرم تھا محبت اسکی سزا ملی ہے
بے جرم کب کسی پر ایسے عذاب آئے
مانگی جو تھی محبت پھر درد کیوں نہ ملتے
جیسے سوال پوچھے ویسے جواب آئے

35
مجھے حاصل ایسی ہدایت ہو
ترے عشق میں تیری عبادت ہو
ہو تیری خوشی میں خوشی میری
مرے دل میں ایسی چاہت ہو
مجھے حاصل ایسی ہدایت ہو
ترے عشق کا جھولا جھول گیا

30
ہر عشق زدہ دیوانے کو افتاد پکارا کرتی ہے
جب درد تماشا بن جائے پھر داد پکارا کرتی ہے
ہر ایک غزل میں لکھتا ہے وہ درد جو اس پر بیتے ہوں
شاعر کو شاعری میں اپنی روداد پکارا کرتی ہے
جب درد بھرا ہو دل میں کہیں پرسانِ حال کوئی بھی نہیں
تو ایسے حال میں رب کو ہر فریاد پکارا کرتی ہے

31
کھلی آنکھوں میں کیسے خواب ہوتے ہیں
جو خواب اشکوں کی صورت آب ہوتے ہیں
ہر اک حسرت سبھی جذبات بہہ جائیں
ان آنکھوں میں تو وہ سیلاب ہوتے ہیں
نہ جانے کن کن آنکھوں کا یہ پانی ہے
کہ جس سے بحر و بر سیراب ہوتے ہیں

33
اس عین شین قاف کی ساری اکائیاں
جو بھی سمجھ گیا ملیں رب تک رسائیاں
یوں عشق میں جو ڈوبا خدا مل گیا اسے
دنیا اسی کی ہو گئی اس کی خدائیاں
دنیا ہے امتحان یہاں غم کسوٹیاں
ملتی نہیں کسی کو بھی یوں ہی گدائیاں

21
قسمتوں سے جدال کرتا ہوں
حسرتوں کا قتال کرتا ہوں
چاہتوں سے مری لڑائی ہے
درد و غم پر میں ڈھال کرتا ہوں
عشق میں درد کے سوا کیا ہے
الفَتوں سے سوال کرتا ہوں

60
درد جس نے سہا نہیں ہوتا
اس کو سکھ کا پتا نہیں ہوتا
زندگی میں غم و خوشی جو نہ ہوں
زندگی میں مزا نہیں ہوتا
سب کو غم اور خوشی جو دیتا ہے
کیا کسی کا خدا نہیں ہوتا

38
اک دیا تھا بجھا دیا دل کو
ہم نے خود ہی رلا دیا دل کو
دل تو نادان تھا مگر ہم نے
کیوں کسی پر لٹا دیا دل کو
عشقِ مبہم کے کچھ اشاروں نے
رقصِ بسمل کرا دیا دل کو

46
یوں اچانک یہ فرمان کیا کر دیا
ہجر کا تم نے اعلان کیا کر دیا
تم نے قسمیں وہ وعدے ارادے سبھی
توڑ کر دل کا ایمان کیا کر دیا
میں برا ہوں بتا کر مرے روبرو
مجھ پہ جاناں یہ احسان کیا کر دیا

35
دل تیرا ہجر میں یوں پریشان اب نہیں
کیا تیرے دل میں پیار کے ارمان اب نہیں
تیری زباں پہ نام بھی باقی نہیں مرا
ہونٹوں پہ میرے نام کی مسکان اب نہیں
تیرے ہیں یار اور بھی ان میں مگن ہے تو
ٹوٹا ہے دل تو کوئی بھی پرسان اب نہیں

20
کسی کے ہجر میں دل بے قرار ہوتا ہے
اداس دل ہو اگر خاردار ہوتا ہے
یہ ہم مزاج یہاں کون آسماں کا ہے
کہ جس کے غم پہ فلک اشکبار ہوتا ہے
کسی نے تیر چلانے سے پہلے سوچا ہے
کہ تیر زہر بجھا دل کے پار ہوتا ہے

25
نظریں ملا کے جو مرے دل کو چرا گیا
مجھ کو یوں ایک پل میں وہ اپنا بنا گیا
پہلے نہ آرزو تھی نہ چاہت نہ دوستی
مجھ کو سکھا کے عشق وہ جینا سکھا گیا
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے نگاہیں بدل گیا
تا عمر ساتھ رہنے کی قسمیں جو کھا گیا

34
غضب ہیں تیری ادائیں دلبر
یہ کمسِنی کی حیائیں دلبر
کہ شوخیوں سے یہ مستیوں سے
بھری ہیں تیری وفائیں دلبر
نشیلے رخسار و لب یہ تیرے
نشہ سا دل میں جگائیں دلبر

34
آ جا کہ تجھے حال بتاؤں تو سکوں ہو
دل چیر کے میں تجھ کو دکھاؤں تو سکوں ہو
گھٹ گھٹ کے جیا کیسے ترے ہجر میں یہ دل
پل پل کے تجھے درد سناؤں تو سکوں ہو
آنسو تو بھر آتے ہیں مگر بہتے نہیں ہیں
آنکھوں میں رکے اشک بہاؤں تو سکوں ہو

24
عشق الزام عشق رسوائی
عشق ہی عشق میں تماشائی
آتِشِ عشق جس نے بھڑکائی
عشق دیوانہ عشق سودائی
دل میں برپا قیامتیں کتنی
ایک دل یادیں اور تنہائی

42
گل گلستان بہہ گئے یارب
کھیت کھلیان بہہ گئے یارب
مٹ چکے ہیں گھروں کے نام و نشاں
کتنے انسان بہہ گئے یارب
مال و خوراک ، جانور ، فصلیں
سب کےسامان بہہ گئے یارب

35
جسم و جاں پر کرم یوں کیا کیجیے
درد میرے نہ کم یوں کیا کیجیے
بس سلامت رہے یوں ہی ذوقِ ستم
مجھ پہ مشقِ ستم یوں کیا کیجیے
حکمِ دلبر سدا سے سر آنکھوں پہ ہے
حکم صادر صنم یوں کیا کیجیے

36
جو سب ہیں خود میں پارسا تو گرد و گرد کون ہے
سبھی کنول جو بن گٕے تو پھر یہ کرد کون ہے
نہ دشمنی رہی کبھی نہ دوستی کسی سے بھی
تو کیا خبر بہار کی یہ بادِ زرد کون ہے
ہیں لوگ مطلبی یہاں کہ مطلبی جہان ہے
یہاں کسی کے درد میں شریکِ درد کون ہے

1
72
ڈوبتوں کے لیے بن کر یہ ثبات إٓی ہے
مانگ لو یارو سعادت کی یہ رات إٓی ہے
ذکر قرآن و محمد نے کیا ہے جس کا
برکتوں والی وہی شبِّ برات إٓی ہے
اس طرح یارو چراغاں ہو سجا دو دنیا
آج دنیا میں فرشتوں کی برات إٓی ہے

98
اس عشقِ بدلگام سے بچنا ہی چاہیے
ہر دل کے انہدام سے بچنا ہی چاہیے
مدہوش کر کے لوٹتے ساقی جو ہیں ہمیں
ہر میکدے سے جام سے بچنا ہی چاہیے
قاتل کی قاتِلانا ادإوں سے ہوشیار
شمشیرِ بے نیام سے بچنا ہی چاہیے

66
جب یار کے دل سے کہ فراموش ہوا میں
مجرم یوں محبت میں بنا دوش ہوا میں
سب درد ملے ہجر کے بے جرم سزا کے
اتنے جو سہے درد ستم کوش ہوا میں
مجھ کو ہے غمِ ہجر نے پینا یہ سکھایا
مے نوش ہوا میں تو بلانوش ہوا میں

78
ہے جو دل میں عشق بسا ہوا تو میں عشق کا ہوں ڈسا ہوا
جو بدل گٕی ہیں یہ چاہتیں تو یہ تیر دل میں چبھا ہوا
نہ سوال ہو نہ جواب ہو کہ فقط سزا ہو عذاب ہو
جو یہ عشق یار ہے جرم تو یہ مری جبیں پہ لکھا ہوا
اے عدوِٕ عشق سوال ہے تو جواب دے تو کمال ہے
اسے مجھ سے کیا ہے یہ دشمنی کہ یوں ہجر مجھ پہ فدا ہوا

2
178
محبت اب نہیں کرنی نہیں پھر دل کو تڑپانا
نہیں اب درد پھر سہنا نہیں پھر دل کو الجھانا
وفا جھوٹی حیا جھوٹی بھلا کس کو یہ راس إٓی
محبت کر کے بھی یارو بھلا کس کو شناس إٓی
ادھر دنیا اجڑتی ہے ادھر محبوب انجانا
محبت اب نہیں کرنی نہیں پھر دل کو تڑپانا

75
اے مرے ملک مری جان تو شاداب رہے
اے وطن تو ہے مری شان تو شاداب رہے
مجھ کو دنیا میں ترے نام سے پہچان ملی
تجھ سے ہستی ہے تو پہچان تو شاداب رہے
تیرے ہر ذرے پہ ہے جان فدا پاک وطن
زندگی تجھ پہ ہے قربان تو شاداب رہے

109
بربادیوں کے نوحے و نالے نہیں گٕے
دل سے بھلإے درد نرالے نہیں گٕے
ان چاہتوں نے روگ مقدر میں لکھ دیے
لیکن یہ دردِ ہجر سنبھالے نہیں گٕے
شکوہ کبھی کیا نہ گلہ ان سے کر سکا
کھولے مری زباں سے یہ تالے نہیں گٕے

75
اے یارو اپنے رب کی عبادت کیا کرو
سرکارِ دو جہاں کی اطاعت کیا کرو
تقلید تم رسولِ خدا کی کرو سدا
اللہ کی رضإوں کی چاہت کیا کرو
ہر عیب سے گناہ سے بچتے رہو سدا
ایمان کی ہمیشہ حفاظت کیا کرو

66
نظریں ملا نظر سے تُو کوٕی کلام کر
دلبر کو دلبری سے ہی اپنا غلام کر
قاتل تری ادإیں تو خنجر سے نین ہیں
نینوں کے وار کر تو یہ قصہ تمام کر

104
دل بھی اس پر اب حیراں ہے
کیوں میں نے یہ نادانی کی
کیوں جرأت پإی سیوک نے
کیوں چاہت کی اک رانی کی

79
ادإیں خرید لے یہ حیإیں خرید لے
تُو اک بار مسکرا یہ وفإیں خرید لے
یوں نظروں کے ایک وار نے گھایل کیا مجھے
نگاہیں اٹھا مری یہ قضإیں خرید لے
مرے دل کی دھڑکنوں میں تو سانسوں میں تو بسا
تو اپنا بنا کے مجھ کو دعإیں خرید لے

96
کیوں محبت کو محبت کے سہارے نہ ملے
دل ملے یار تو قسمت کے ستارے نہ ملے
اس طرح ہجر بلا بن کے یہ لپٹا حامد
لاکھ ڈھونڈے ہیں مگر ہجر اتارے نہ ملے

4
123
مجھے محبت یوں راس إٓی
رہی غموں سے ہے ہم نوإی
اسیر ہوں میں محبتوں کا
نہ پا سکا عمر بھر رہإی
سدا مرا دل رہا ہے تشنہ
کبھی صنم کی نہ دید پإی

73
کس طرح درد مجھ کو عطا ہو گیا
کس لیے یار مجھ سے جدا ہو گیا
زندگی ختم ہوتی تو غم ہی نہ تھا
الفَتوں کا ہی گل کیوں دیا ہو گیا
روٹھتا تھا اگر میں مناتا مجھے
آج مجھ سے وہ کیسے خفا ہو گیا

1
75
تم تو کہتے تھے کہ الفاظ کے جادوگر ہو
پھر مرے سحر سے تم یار کہ نکلے کیسے
تم تو پڑھتے تھے محبت کے قصیدے حامد
آج تم نامِ وفا سن کے ہو بھڑکے کیسے

101
دل پہ کب اختیار ہے اپنا
جب سے دل بے قرار ہے اپنا
گمشدہ دل کو پا سکیں پھر سے
اب تو بس انتظار ہے اپنا
بےسکوں کر گیا ہے آخر کیوں
چین دل پر ادھار ہے اپنا

1
113
کاش اتنا خیال رکھ لیتا
دل کو اپنے سنبھال رکھ لیتا
چوٹ نظروں کی دل پہ نا لگتی
دل پہ پتھر کی ڈھال رکھ لیتا
دل تو اڑنے لگا ہوإوں میں
عشق میں دھیمی چال رکھ لیتا

99
مری محبت مرا صنم تو
مری خوشی تو مرا ہے غم تو
ہے آرزو بھی تو جستجو بھی
مرا تخیل مرا قلم تو
خیال تیرا ہے ہر غزل میں
کہ شاعری میں ہے زیر و بم تو

59
کب کہا میں نے عشق پورا ہے
عشق شاید ابھی ادھورا ہے
عشق کوٕی حسین سپنا ہے
عشق جنت نظیر حورا ہے
عشق میں ہوش کب رہا مجھ کو
عشق کہتے ہیں اک دھتورا ہے

59
آنکھوں میں انتظار و اداسی کو دیکھ لے
تصویرِ یاس، حسرَتِ آسی کو دیکھ لے
کیوں اس طرح سے یار محبت سزا بنی
دلبر کبھی تو عشق کے عاصی کو دیکھ لے
ہمدرد آج حال سے بےحال ہے ترا
اس ہجر میں تو حالِ مواسی کو دیکھ لے

57
لادوا درد کی دوا کر دے
حوصلہ دل کو مسکرا کر دے
دل کو کچھ تو قرار مل جإے
چین إٓے اِسے دعا کر دے
آج دل ڈوبنے کو ہے میرا
آج تنکا ہی آسرا کر دے

76