اس عین شین قاف کی ساری اکائیاں
جو بھی سمجھ گیا ملیں رب تک رسائیاں
یوں عشق میں جو ڈوبا خدا مل گیا اسے
دنیا اسی کی ہو گئی اس کی خدائیاں
دنیا ہے امتحان یہاں غم کسوٹیاں
ملتی نہیں کسی کو بھی یوں ہی گدائیاں
ذکرِ خدا ہو سانسوں میں ذکرِ رسول ہو
دنیا کی فکر و غم سے ملیں گی رہائیاں
دنیا کو چھوڑ کر تو عبادت میں سر جھکا
دینی ہیں ایک دن تو تجھے بھی صفائیاں
دنیا کی دولتوں کی نہ باقی رہے ہوس
یوں مبتلائے عشق مجھے کر دے سائیاں
حامد کے پاس آئیں یہ منکر نکیر جب
ہاتھوں میں ہوں تو عشقِ خدا کی کمائیاں

21