عزتیں ملتی نہیں جھوٹے خطابوں سے کبھی |
خوشبو آتی نہیں کاغذ کے گلابوں سے کبھی |
ہم جہاں سے تو سدا عیب چھپا رکھتے ہیں |
کس طرح پائیں گے چھٹکارا حسابوں سے کبھی |
دل سے مجبور ہیں انسان بندھے رہتے ہیں |
عشق ہوتا نہیں محدود طنابوں سے کبھی |
کوئی دشمن ہو تو لڑنے کا مزا آتا ہے |
جیت پایا ہے مگر کون سرابوں سے کبھی |
ہوش جاتے ہیں تو ہم درد بھلا دیتے ہیں |
یاد مٹتی ہی نہیں دل کی شرابوں سے کبھی |
درد ہی درد ملے پیار کی دلدل میں سدا |
جان چھٹتی ہی نہیں ہجر عذابوں سے کبھی |
کس لیے درد سخن میں یوں بیاں کرتے ہیں |
کس نے پوچھا ہے یہ ہم خانہ خرابوں سے کبھی |
زندگی نے جو سبق ہم کو سکھائے حامد |
سیکھ پائے نہ وہ دنیا کی کتابوں سے کبھی |
معلومات