بربادیوں کے نوحے و نالے نہیں گٕے
دل سے بھلإے درد نرالے نہیں گٕے
ان چاہتوں نے روگ مقدر میں لکھ دیے
لیکن یہ دردِ ہجر سنبھالے نہیں گٕے
شکوہ کبھی کیا نہ گلہ ان سے کر سکا
کھولے مری زباں سے یہ تالے نہیں گٕے
لوٹا کبھی شباب کہاں زندگی بتا
اجڑے وجود پھر کبھی ڈھالے نہیں گٕے
بے چین روح لے کے یوں بھٹکا ہے دربدر
اب تک وجودِ عشق سے چھالے نہیں گٕے
خوشیوں کے انتظار میں جینا ہے کب تلک
بے کیف زندگی کے یہ لالے نہیں گٕے
حامد نہ سوچ کوٕی نہ دھڑکن رواں رہی
قیدِ حیات سے بھی نکالے نہیں گٕے

75