یوں اچانک یہ فرمان کیا کر دیا
ہجر کا تم نے اعلان کیا کر دیا
تم نے قسمیں وہ وعدے ارادے سبھی
توڑ کر دل کا ایمان کیا کر دیا
میں برا ہوں بتا کر مرے روبرو
مجھ پہ جاناں یہ احسان کیا کر دیا
بے وفائی کا الزام دے کر مجھے
میری چاہت پہ بہتان کیا کر دیا
چھین کر چاہتیں درد دے کر سبھی
اس کہانی کا عنوان کیا کر دیا
اٹھ گیا ہے بھروسہ محبت سے اب
تم نے چاہت کا نقصان کیا کر دیا
دوش دل کا بتا کر سزا دی گئی
نفرتوں نے یہ قربان کیا کر دیا
دے کے حامد مجھے موت کا درد یوں
میری میت کا سامان کیا کر دیا

35