کس طرح درد مجھ کو عطا ہو گیا
کس لیے یار مجھ سے جدا ہو گیا
زندگی ختم ہوتی تو غم ہی نہ تھا
الفَتوں کا ہی گل کیوں دیا ہو گیا
روٹھتا تھا اگر میں مناتا مجھے
آج مجھ سے وہ کیسے خفا ہو گیا
جان سے بھی عزیز اس کو تھا میں کبھی
دیکھتے دیکھتے کیوں برا ہو گیا
مجھ سے ناراض ہے وہ مگر کس لیے
بھول کر عشق کیوں بے وفا ہو گیا
مجھ سے میری صفإی نہ مانگی کبھی
ایک طرفہ یہ کیا فیصلہ ہو گیا
خود بنا مدَّعی خود گوا ہو گیا
خود ہی منصف بنا خود خدا ہو گیا
عشق تحفے میں جب ہجر مجھ کو ملا
درد بڑھنے کا اک سلسلہ ہو گیا
روز خود کو نیا زخم حامد دیا
درد ہی درد کی جب دوا ہو گیا

1
75
خود ہی منصف بنا خود سزا ہو گیا

0