آنکھوں میں انتظار و اداسی کو دیکھ لے |
تصویرِ یاس، حسرَتِ آسی کو دیکھ لے |
کیوں اس طرح سے یار محبت سزا بنی |
دلبر کبھی تو عشق کے عاصی کو دیکھ لے |
ہمدرد آج حال سے بےحال ہے ترا |
اس ہجر میں تو حالِ مواسی کو دیکھ لے |
اب کون تیرے روبرو تسلیم خم کرے |
آ پھر پرانے اپنے خواصی کو دیکھ لے |
میرے خلوص پر ہے شبہ تجھ کو یار کیوں |
کچھ جھانک اپنے کھیلِ سیاسی کو دیکھ لے |
میں دل سے مانتا ہوں کہ مجرم ترا ہوں میں |
مجرم سمجھ کے اپنے معاصی کو دیکھ لے |
تیرا یہ ہجر مار نہ ڈالے تو لوٹ آ |
حامد کہ آج اپنے خلاصی کو دیکھ لے |
معلومات