خواہشوں کی طلب ہم جدا رکھتے ہیں
اپنی آنکھوں میں شرم و حیا رکھتے ہیں
جن سے پیماں نہ کوئی نبھائے گئے
ہم سے کیوں آرزوئے وفا رکھتے ہیں
کیوں زمانے کے لوگو خفا ہم سے ہو
ہم تو خود سے ہی خود کو خفا رکھتے ہیں
ان سے باتیں ہوں دیدار ہو پیار ہو
دل میں ہم خواہشیں کیا سے کیا رکھتے ہیں
حالِ دل کس کو معلوم ہو گا یہاں
روگ کتنے ہی دل کو لگا رکھتے ہیں
ہنس کے محفل میں کچھ لوگ حامد یہاں
درد دل کا سبھی سے چھپا رکھتے ہیں

2
33
کیا کہنے ۔۔۔
دل میں ہم خواہشیں کیا سے کیا رکھتے ہیں۔۔۔
لطف آ گیا ۔ شاندار شاعری

0
نوازش محترم @kashif Ali Abbas صاحب
سدا خوش رہیں

0