خواہشوں کی طلب ہم جدا رکھتے ہیں |
اپنی آنکھوں میں شرم و حیا رکھتے ہیں |
جن سے پیماں نہ کوئی نبھائے گئے |
ہم سے کیوں آرزوئے وفا رکھتے ہیں |
کیوں زمانے کے لوگو خفا ہم سے ہو |
ہم تو خود سے ہی خود کو خفا رکھتے ہیں |
ان سے باتیں ہوں دیدار ہو پیار ہو |
دل میں ہم خواہشیں کیا سے کیا رکھتے ہیں |
حالِ دل کس کو معلوم ہو گا یہاں |
روگ کتنے ہی دل کو لگا رکھتے ہیں |
ہنس کے محفل میں کچھ لوگ حامد یہاں |
درد دل کا سبھی سے چھپا رکھتے ہیں |
معلومات